Khidmat-e-Quran

Khidmat-e-Quran

Al-Shabbir Organization is very keen for Khidmat-e-Quran. In this free service, Alshabbir is working to collect teared Quranic pages and religious inscriptions which are not usable to anyone.
In order to accomplish that, We developed a process of collecting from Masajid of Houston and properly buried it according to Islamic laws.

Follow instructions below

Step – 1

Register your Mosque or Organization here

Step – 2

A collection box will be provided by Al-Shabbir for your mosque or Islamic organization

Step – 3

Call 832-602-0428 to schedule a pickup when the box is full.

Step – 4

A scheduled pickup will be done according to the strict Islamic laws and respect of Quran-e-Kareem

Step – 5

After collection it will be stored for 60 days before properly buried in ground.

Register Here

    For more information
    Contact Us

    Fatwa Question Answer

    سوال:۔قران پا ک کے اسیے نسخے جو بوسیدہ ہو چکے ہو ں اور تلا وت کے لئے ا ستعما ل نہ ہو تے ہو ں، او ر ا سیے ہی پر انے سپا ر ے اور ا ن کے منتشر اوراق،اسلا می رسا ئل اور کتا بچے جن میں قرآن پا ک کی آیا ت اور ا حاد یث ر سول ﷺہو ں اور ان کو اس نیت پر کے ان کی بے حر متی نہ ہو اور ان کی راکھ کو کسی محفو ظ مقا م پر د فن یا سمندر بُر دکر د یا جا ئے گا،جلا نا جا ئز ہے یا نہیں؟جبکہ اصح ا لکتب بعدکتا ب اللہ صحیح ا لبخا ری ج:۲با ب فضا ئل قر آن ص:۴۶۷ پر حد یث ہے کہ حضر ت عثما ن رضی اللہ عنہ نے قر آن جلا نے کا حکم فر ما یا ہے،شر عی حکم قر آن و حد یث اور فقہ حنفی کی رو سے عنا یت فر ما ئیں ۔

    جواب:۔فقہا ئے حنفیہ نے تر جیح اس کو د ی ہے کہ قر آن کر یم کے بو سید ہ اوراق کوجلا نے کہ بجا ئے یا تو کسی محفو ظ جگہ پر د فن کر د یا جا ئے یا ا گر وہ اوراق دُھل سکتے ہیں تو حروف کو د ھو کر ان کا پا نی کسی کنو یں یا ٹنکی و غیر ہ میں شا مل کر دیا جا ے،اور د فن کر نے کا بھی بہتر طر یقہ یہ ہے کہ ان ا وراق کو کسی کپڑ ے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جا ئے،ا گر یہ دونوں کا م مشکل ہوں تو ان اوراق کو کسی سمندر،دریا،کنو یں میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

    فی الدر ا لمختا را لکتب النی لا ینتفع بھا یمحی عنھا ا سم ا للہ و ملا ئکۃورسلہ و یحر ق ا لبا قی،ولا بأس بأن تلقی فی ما ء جا ر کما ھی أتد فن و ھو أحسن کما فی ا لا نبیاء.و فی ا لشا میتہ تحتہ:ا لمصحف اذا صا ر خلقا،تعذر ا لقر اء منہ لا یحرق با لنار،ا لیہ أیشا ر محمد وبہ نأخذ،و لا یکرہ د فنہ،وینبغی أ ن یلف بخر قتہ طا ھرۃویلحد لہ،لأ یلحد لہ،لأ نہ لو شق ود فن یحتا ج ا لی اھا لتہ ا لتراب علیہ۔ (شا می حظر و ا باحت ا و اخر فصل ا لبیع)

    اور بعض علمأ نے حضر ت عثما ن رضی اللہ عنہ کے ا ستد لا ل کر کے قرآن کر یم کے بوسیدہ اور ق کو نذ ر آ تش کر نے کی بھی اجا ز ت دی ہے،لیکن د وسر ے علمأ نے یہ تو جیہ کی ہے انہو ں نے جن مصا حف کو نذ ر آتش کیا تھا وہ تما م تر قرآن کر یم نہ تھے،بلکہ ا ن میں تفسیر ی ا ضا فے وغیرہ بھی درج تھے،اگر وہ خالص قر آن ہو تے تو آپ رضی اللہ عنہ ا نہیں نذ ر آتش نہ فر ما تے،چنا نچہ مُلاَّقا ریؒ لکتھے ہیں:۔

    قا ل ابن حجر:وفعل عثما ن رضی اللہ عنہ یر جَح ا لا ِ حرا ق و حر قہ بقصد صیا نتہ با لکلیۃ لا ا متھا ن فیہ بو جہ……وا لقیا س علٰی فعل عثما ن لا یجو ز، لأ ن صنیعہ کا ن بما شبت أ نہ لیس من ا لقرآن أو مما ا ختلط بہ اختلا طا لا یقبل ا لا نفکا ک، وا نما اختا ر ا لاِحرا ق لاَ نہ یز یل الشک فی کو نہ تر ک بعض ا لقر آن،اذ لو کا ن قر اٰنا لم یجو ز مسلم أ ن یحر ا قہ و ید ل علیہ أ نہ لم یئو مر بحفظ ر مادہ من ا لو قو ع فی ا لنجا ستہ.(مر قا ۃ ا لمفا تیح ج:۵ ص:۹۲)

    خلا صہ یہ ہے کہ ا حتیا ط کا تقا ضا یہی ہے کہ ا یسے اوراق کو جلا نے کے بجا ے ئ د فن کیا جا ے لیکن بعض علمأ نے جلا نے کی بھی ا جا زت دی ہے اور اس کا مأخذ بھی ہے اس لیئے کو ئی نذر آتش بھی کر ئے تو ا سے حرا م کہنا مشکل ہے۔ و ا للہ سبحانہ ا علم ۰۱/۰۱/۷۹۳۱ھ

    جو ا ب۔ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
    مَنٔ یُعئظِمٔ شَعَائِراللّہِ فَاِنَّھَا مِنئ تَقئوٰی ا لئقُلُؤب

    قر آن مجید ا للہ کا کلا م ہے ا س کی ہر آیت،ہر لفظ اور ہرحر ف لا ئق صد تکر یم ہے،اور ا سے بے و ضو چھو نا شر عاً نا جائز ہے۔ٖبو سید ہ قر آنی اوراق کو تلف کر نے کیئ طر یقے ہیں۔

    ۱۔کسی کیمیکل کے ذریعے قر آنی حر وف ختم کر نا پھر ان کو جلا نا اور انھیں کسی پا ک جگہ دفنا نا جا ئز ہے۔ ۲۔ اگر ا یسا نا ممکن ہو تو پھر قبر نما گڑھا بنا نا اور ا س بو سید ہ قرآنی اوراق دفنا نا جیسا کہ ا نبیا ء کر ام کے مقد س و جو د ا پنی اپنی قبرو ں مد فو ن جائز ہے۔بشر طیکہ گڑ ھے کے اوپر کوّر ہو چاہیے سٹیل کا ہو یا لکڑ ی یا پتھر کا۔علا مہ ا بن عا بد ی شا میؒ ؒلکتھے ہیں:۔

    و فی ا لذ خیر ۃ ا لمصحف ا ذا صا ر خلقاً و تعذّر ا لقر اء منہ لا یحرق با لنّا ا لیہ ا شا ر محمد و بہ نا خذ، و لا یکر ہ د فنہ و ینبغی ان یلف بخر قۃ طا ھر ۃ، و یلحد لہ،لا نہ لو شق و د فن یحتا ج ا لٰی ا ھا لۃ ا لتر اب علیہ و فی ذ الک نو ع تحقیر، الاّاذا جعل فو قۃ سقف،وان شا ء غسلہ با لماء و ضعہ فی مو ضع طا ھر لا تصل

    ا لیہ ید محد ث ولا غبا ر و لا قذ ر تعظیما لکلا م ا للہ عزوجل۔

    ترجمہ؛۔اورذ خیر ہ میں ہے کہ مصحف جب بو سید ہ ہو جا ئے اور پڑھا جا سکتا ہو ا س کو آگ میں نہیں جلا یا جا ئے گا،امامحمدؒ نے ا س کی طر ف ا شا رہ کیا ہے اور ہم نے ا سی کو ا ختیا رکیا ہے،اور اس کو دفنا نا مکر وہ نہیں ہے۔بلکہ منا سب یہ ہے کہ مصحف کو ایک پا ک کپڑ ے میں لپیٹ کر اور لحد(بغلی قبر کی طرح)جگہ بنا کر د فن کر د یا جا ئے،اگر صرف گڑھا کھو دا گیا (لحدنہ بنا ئی)تو ا س میں د فنا نے کے بعد ا س پر مٹی ڈا لنے کی ضر ورت ہو گی اور اس میں مصحف کی ا یک قسم کی بے ادبی ہے۔ہا ں ا گر گڑھے کے اوپر چھت بنا ئی جا ئے۔ا گر چا ہے تو ا س کو پا نی کے سا تھ د ھو لے یا کسی پا ک جگہ ر کھ د یں جہا ں بے کا ہا تھ نہ لگے اور غبا ر اور گند گی نہ لگے،کلام ا للہ کی تعظیم کی و جہ سے۔

    ا لد ین کلہ ا د ب دین سر اپا ا د ب ہے۔

    بند ہ معمو لی سی بے اد بی سے ا یما ن سے محر وم بھی ہو سکتا ہے اور معمو لی ادب سے ایما ن سے سر شار بھی ہو سکتا ہے۔

    عبدا لبیصررازی
    مفتی علما ء ا یبٹ آباد

    سوال: امریکا میں قرآنِ پاک کے بوسیدہ نسخے جو پڑھنے کے قابل نہ ہوں ان کو محفوظ کرنے کا شریعت میں کیا طریقہ بیان کیا گیا ہے؟ کیا ان کو پانی یا کیمیکل کے ذریعے تحلیل کیا جا سکتا ہے؟ یا دفنایا جا سکتا ہے؟ یا زمین میں دفنا کر پانی سے تحلیل کر سکتے ہیں تا کہ کم سے کم جگہ گھیرے ؟


    جواب: قرآنِ کریم کے جو اَوراق یا نسخے انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کی بہتر صورت یہ ہے کہ انہیں کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر گہرائی میں دفن کردیا جائے؛ تا کہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔ دوسراطریقہ یہ ہے کہ کپڑے کے تھیلے میں ان اوراق یا نسخوں کے ساتھ پتھر رکھ کر دریا،سمندروغیرہ میں ڈال دیا جائے؛ تاکہ کنارے پر نہ آئے۔

    “درمختار مع ردالمحتار”میں ہے: “المصحف إذا صار بحال لايقرأ فيه يدفن كالمسلم”. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارة، سنن الغسل (1/177) ط:سعید) فقط واللہ اعلم

    فتوی نمبر : 144010200871
    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن